ایک ایسی فلم جس نے سائنس فکشن کی دنیا میں ایسا تہلکہ مچایا کہ آج تک اس کے پاۓ کی فلم نہ بن سکی.
Film: INTERSTELLER
ڈائریکٹر کرسٹوفر نولان کے اس شہکار میں ناسا کے کچھ سائنس دان ایک ایسے سیارہ کا کھوج لگاتے ہیں جہاں زندگی پنپنے کے امکانات ہوتے ہیں.
سیارہ کے حوالے سے سب سے دردناک بات جو ہوتی ہے وہ ہوتی ہے اسکا ٹائم ڈائلاشن، یعنی بلیک ہول کے زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے وہاں وقت کا رفتار نہایت سست ہوتا ہے. یوں اس سیارہ جسکا نام Miller ہوتا ہے، پر ایک گھنٹہ گزارو تو یہاں زمین پر سات سال گزر چکے ہوں گے. اور یہی سے شروع ہوتی ہے اصل کہانی.
لیڈ کریکٹر کوپر اپنی چھوٹی بیٹی کو ناراض چھوڑ کر گیا ہوتا ہے اسلئے وہ جلد از جلد واپس جانا چاہتا ہے اس لئے وہ فیصلہ کرتا ہے کہ سیارہ پر کم سے کم وقت گزار کر ہم اوپر اسکی خلا میں آئیں گے تاکہ ہم پر چند گھنٹوں میں دہائیاں نہ گزرے. اس طرح وہ اپنے ایک ساتھی سائنسدان کو وہیں سپیس سٹیشن میں چھوڑ کر نیچے جاکر سیارہ Miller پر قدم رکھتے ہیں. بدقسمتی سے وہاں جا کر وہ کچھ دیر کے لئے پانی میں بری طرح سے پھنس جاتے ہیں. خیر کسی طرح وہ اوپر پہنچتے ہیں. اپنے ساتھی کی ابتر حالت دیکھ کر ہکہ بکہ رہ جاتے ہیں اور حیرت کا شدید جھٹکا تب لگتا ہے جب انکا ساتھ اِن سے کہتا ہے “میں نے آپ لوگوں کا 23 سال انتظار کیا”.
آگے کی کہانی بتاکر آپکا مزہ خراب نہیں کرنا چاہتا ہوں.
سب سے خاص بات:
فکشن ہونے کے باوجود فلم میں کہیں بھی لاجک کو بائی پاس کر کے بھونڈے پن سے کام نہیں لیا گیا. ایک ایک سین دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے. Miller سیارہ لاکھوں نوری سال دور ہونے کی وجہ سے چوں کہ انسان کی دسترس سے باہر ہے اسلئے سیارہ زحل کے قریب ایک Wormhole کا تصور پیش کیا گیا ہے جو کہ ممکنات میں سے ہیں اور اسی کے ذریعے اس سیارے تک جاتے ہیں.
بلیک ہول انتہائی قریب سے اور انتہائی خوبصورتی سے دکھایا گیا ہے (یاد رہے بلیک ہول کی پہلی آفیشل تصویر فلم کے ریلیز ہونے کے تین سال بعد شایع ہوئی تھی).
فلم کے لئے نوبل انعام یافتہ سائنسدان Kip Thorne کو اسسٹنٹ رکھا گیا تھا.
اس فلم کی جان اسکا بیک گراؤنڈ تھیم ہے. ایسا تھیم کہ اگر آپکو اس سے عشق ہوگیا اور بعد میں یوٹیوب پر گھنٹوں گھنٹوں یہی دھیما میوزک سنیں تو ایک بار ضرور میرا شکریہ ادا کریں گے.