تاجروں کے خاندان کی ایک بیٹی کی شادی ایک ایسے مرد سے ہوئی جو سیر و سیاحت کا بہت شوقین تھا
ایک مرتبہ وہ سفر پر روانہ ہوا اور طویل عرصہ تک اس کی کوئی خبر نہ آئی اس کی بیوی انتظار اور احساس تنہائی کے ہاتھوں تاجروں کے ایک نوجوان خوبرو بیٹے کی محبت میں گرفتار ہوگئی دونوں ایک دوسرے کی محبت کے اسیر تھے ایک دن اس نوجوان کا کسی آدمی سے جھگڑا ہوگیا اس آدمی نے پولیس پر رپورٹ لکھوائی سربراہ پولیس نے اس نوجوان کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا جب یہ خبر تاجر کی بیوی یعنی اس نوجوان کی محبوبہ تک پہنچی تو اس نے اپنے سب سے قیمتی کپڑے زیب تن کیے اور غصے میں آگ بگولا سربراہ پولیس کی خدمت میں پہنچی پہلے وہ آداب بجا لائی اور پھر ایک تحریری شکایت پیش کی وہ درج ہے
جس شخص کو قید میں ڈالا گیا ہے وہ میرا عزیز بھائی ہے وہ بے گناہ ہے اس کے خلاف جھوٹی شہادت پیش کی گئی ہے اور اسے ناجائز طریقے سے مقید کیا گیا ہے وہ میرے نان نفقے کا ذمہ دار ہے اور اس کے بغیر میں لاوارث ہوں اس لئے میں یہ درخواست کرتی ہوں کہ اسے جلد سے جلد رہا کیا جائے
جب وہ گزارش *والی شہر* کی خدمت میں پیش کی گئی تو اس نے ایک نظر عورت پر ڈالی نظر کا کیا ڈالنا تھا کہ وہ اپنا دل کھو بیٹھا *والی شہر* نے عورت سے کہا تم میرے گھر میں ٹھہرو جب تک ہم اس نوجوان کو قید خانے سے منگوائیں جب وہ آ جائے گا تو ہم اسے تمہارے ہمراہ بھیج دیں گے اس عورت نے کہا میرا خدا کے علاوہ کوئی نگہبان نہیں ہے میں ایک اجنبی عورت ہوں اور کسی نامحرم کے گھر داخل نہیں ہوتی
*والی شہر* بولا جب تک میرے گھر نہیں جاؤ گی میں اس مرد کو رہا نہیں کر سکتا ہمارا تنہائی میں ملنا بہت ضروری ہے
وہ عورت جو والی کا در پردہ پیغام سمجھ رہی تھی بولی اگر ایسی ہی بات ہے تو آپ میرے گھر کیوں تشریف نہیں لاتے وہاں آپ آرام بھی کر لیں گے اور ہم گفتگو کے لیے بھی وقت نکال لیں گے
تمہارا گھر کہاں ہے؟
*والی شہر* فوراً بولا
اس عورت نے اپنے گھر کا پتہ دیا وقت کا تعین کیا اور بڑی بے نیازی سے آگے بڑھ گئی اس کے بعد وہ *قاضی شہر* کے پاس پہنچی اور کہنے لگی *اے قاضی* ہمارے نگہبان
کیا بات ہے؟
*قاضی* نے پوچھا
اگر آپ میرے بارے میں انصاف کریں گے تو خدا آپ کو اجر عظیم بخشے گا
تمہارے ساتھ کس نے نا انصافی کی ہے؟
میرا ایک بھائی ہے جو معصوم ہے اسے *والی شہر* نے سربراہ پولیس کے کہنے پر جیل میں ڈال دیا ہے اس کے خلاف جھوٹی شہادتیں پیش کی ہیں میری آپ سے درخواست ہے کہ اسے رہا کرنے میں مدد کریں
جب *قاضی* نے اس عورت کے حسن کو دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا اس کو اپنے جذبات پر قابو نہ رہا بولا تم میرے گھر میں میری ملازماؤں کے پاس انتظار کرو میں *والی شہر* کو پیغام بھیج کر تمھارے بھائی کو منگواتا ہوں تمہاری باتوں نے میرا دل موہ لیا ہے
وہ عورت اس مرد کے دل کا بھید بھی جان گئی بولی اگر آپ نے کچھ وقت گزارنا ہے تو میرے گھر آئیے جہاں ملازمائیں مخل نہیں ہوں گی اور ہم تخلیے میں بات کرسکیں گے
تمہارا گھر کہاں ہے؟
*قاضی* فوراً بولا
عورت نے اسے اپنے گھر کا پتہ بتایا اور اسے بھی وہی وقت بتایا جو *والی* شہر کو بتا چکی تھی
اس کے بعد وہ *وزیر* کی خدمت میں پیش ہوئی اور اسے بھی اپنی بپتا سنائی *وزیر* نے بھی اس کے حسن کو دیکھ کر ملاقات کا بہانہ تلاش کیا عورت نے اسے بھی اپنے گھر آنے کی دعوت دی اور اسی وقت بلایا جس وقت اس نے باقی لوگوں کو دعوت دی تھی
اس کے بعد وہ *بادشاہ+ کی خدمت میں حاضر ہوئی اپنی رام کہانی سنائی اور نظر کرم کی گزارش کی *بادشاہ* وقت نے اس کی باتیں سنیں تو اس کا دل محبت کے تیروں سے چھلنی ہوگیا *بادشاہ* نے پوچھا تمھارے بھائی کو کس نے قید کیا ہے؟
*سربراہ پولیس نے* اس نے جواب دیا
*بادشاہ* نے یہ مشورہ دیا کہ وہ اس کے ساتھ محل میں چلے کچھ دیر استراحت کرے تاکہ وہ *قاضی* کو پیغام بھجوا کر اس کے بھائی کو رہا کروا سکے عورت بولی یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے کہ مجھے محل میں آنے کی دعوت دی لیکن یہ مجھ پر اور بھی احسان ہوگا اگر آپ ناچیز کے غریب خانے پر تشریف لائیں مجھے امید ہے کہ آپ میری اس درخواست کو رد نہیں کریں گے *بادشاہ* نے اس کی دعوت قبول کرلی عورت نے *بادشاہ* کو اپنے گھر کا پتہ بتایا اور اسے بھی اسی وقت بلایا جس وقت اس نے باقی تین مردوں کو دعوت دی تھی
جب وہ عورت *بادشاہ* سے باتیں کر کے فارغ ہوئی تو ایک *ترکھان* کے پاس گئی اور اس سے ایک ایسی الماری بنانے کی درخواست کی جس کے چار حصے ہوں ہر خانہ دوسرے کے اوپر ہو اور علیحدہ سے مقفل ہو سکے پھر اس نے ایسی الماری بنانے کی اجرت پوچھی *ترکھان* بولا ویسے تو اس کی اجرت چار دینار ہے لیکن میں تم سے اتنا متاثر ہوا ہوں اگر تم مجھ پر مہربان ہو جاؤ تو میں یہ الماری بطور ہدیہ پیش کر دوں گا
عورت نے حامی بھر لی اور بولی لیکن چار کے بجائے پانچ خانے بنانا اور اسے خاص اس دن لانے کو کہا جس دن سب مہمانوں نے آنا تھا *ترکھان* نے اسے رکنے کو کہا اور تھوڑی ہی دیر میں الماری تیار کر دی عورت اسے لے کر گھر چلی گئی اور *ترکھان* کو بھی اسی دن اسی وقت کی دعوت دے آئی گھر پہنچ کر عورت نے چند کپڑے نکالے اور انہیں مختلف رنگوں میں رنگوا کر سنبھال کر رکھ دیا اس کے بعد اس نے دعوت کے لیے شراب پھولوں پھلوں اور عطر کا انتظام کرنا شروع کر دیا
جس دن سب مہمانوں نے آنا تھا اس عورت نے اپنے قیمتی کپڑے زیب تن کیے عطر لگایا گھر میں عمدہ قالین بچھائے اور سب مہمانوں کی آمد کا انتظار کرنے لگی اتفاق سے سب سے پہلے *قاضی* نمودار ہوا عورت نے اسے بڑے احترام سے خوش آمدید کہا قدم بوسی کے لیے رکی اور اسے ہاتھ سے پکڑ کر صوفے پر بٹھا دیا پھر وہ اس کے پہلو میں لیٹ کر اٹکھیلیاں کرنے لگی پھر وہ بولی آپ اپنے کپڑے اور پگڑی اتار کر سکون سے بیٹھئے میں آپ کے لیے کچھ کھانے پینے کا سامان لاتی ہوں اور اسے رنگین کپڑے دے دیے
*قاضی* نے ابھی عورت کے دیے ہوئے کپڑے رنگین کپڑے پہنے ہی تھے کہ کسی نے دروازے پر دستک دی *قاضی* نے پوچھا دروازے پر کون ہے؟
*میرا شوہر* عورت بولی *قاضی* کے ہاتھ پاؤں پھول گئے
میں کہاں جاؤں اور کیا کروں؟
قاضی بولا
فکر نہ کرو عورت بولی میں تمہیں اس الماری میں چھپا دوں گی
جو مناسب سمجھو کرو قاضی بوکھلایا ہوا تھا
عورت نے *قاضی* کا ہاتھ پکڑا اسے الماری کے سب سے نچلے خانے میں دھکیلا اور مقفل کر دیا پھر وہ دروازے تک گئی تو دیکھا *والی شہر* تھ۔ وہ قدم بوسی کے لیے جھکی اور اسے بڑے پریم سے اندر لے آئی پھر وہ اس کے قریب بیٹھ کر بولی حضور والا اسے اپنا ہی گھر سمجھیے اور بڑے سکون سے سارا دن یہاں گزاریے میں آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہوں میں آپ کو یہ رنگین کپڑے دیتی ہوں تاکہ آپ استراحت کرسکیں یہ لباس شب خوابی ہے کپڑے تبدیل کرنے کے بعد وہ راز و نیاز میں مصروف ہوگئے جب *والی* نے قربتوں کی لو بڑھانی چاہی تو عورت بولی اگر آپ میرے بھائی کی رہائی کے احکام مجھے لکھ دیں تو میرے دل کو سکون ہو اور میں آپ کی صحبت سے زیادہ محفوظ ہو سکوں
*والی* نے قلم اٹھایا اور جیل کے *افسر* کے نام پیغام لکھا جو نہی یہ پیغام آپ تک پہنچے اس شخص کو رہا کر دیا جائے جس کو یہ لینے آئی ہیں
عورت نے وہ رقعہ سنبھال کر رکھ لیا اور اس کی آغوش میں دوبارہ سمٹ آئی *والی* ابھی اپنی تشنگیوں کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ کسی نے دروازے پر دستک دی اس نے پوچھا
یہ کون ہے؟
عورت بولی
*میرا شوہر*
میں کیا کروں؟
اس نے بوکھلا کر پوچھا
آپ اس الماری میں چھپ جائیں میں اس سے نپٹ کر لوٹتی ہوں اس نے والی کو الماری کے دوسرے خانے میں مقفل کر دیا اور دروازہ کھولنے لگی دروازے پر *وزیر* تھا اسے وہ پیار سے اندر لائی اس کی تعریفیں کی۔ اس کے بھی کپڑے بدلوائے اور ابھی ہم آغوش ہونے ہی والی تھی کہ کسی نے پھر دستک دی *وزیر* گھبرا گیا اس نے اسے بھی الماری کے تیسرے خانے میں بند کیا اور دروازہ کھولنے گئی اس دفعہ *بادشاہ سلامت* تھے وہ *بادشاہ* کی قدم بوسی کے لئے جھکی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اندر لے آئی اس نے *بادشاہ* کو خصوصی جگہ پر بٹھایا اور بولنے لگی میری کتنی خوش قسمتی ہے کہ آپ نے میری کٹیا کو رونق بخشی آپ سکون سے کچھ وقت گزاریں میں نے ہلکے پھلکے کپڑے بنوائے ہیں انہیں پہن کر دیکھئے اس نے *بادشاہ* کے قیمتی کپڑے اتروا کر سادہ رنگین کپڑے پہننے کو دیے وہ عورت ابھی *بادشاہ* سے گفتگو ہی کر رہی تھی کہ دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز آئی *بادشاہ* نے پوچھا
یہ کون ہے؟
*میرا شوہر*
عورت بولی
*بادشاہ* غصے میں آگیا اس سے کہو اپنی مرضی سے چلا جائے ورنہ اسے طاقت سے واپس بھیج دیا جائے گا
عورت بولی فکر کی بات نہیں میں اسے پیار سے واپس بھیج دوں گی آپ ذرا مصلحت سے کام لیں
کیا مطلب؟
*بادشاہ* نے پوچھا
اس نے *بادشاہ* کا ہاتھ پکڑا اسے چوتھے خانے میں بند کیا اور واپس آنے کا وعدہ کر کے دروازے کی طرف چل دی دروازہ کھولا تو وہاں پر *ترکھان* تھا اس نے جھک کر عورت کو سلام کیا عورت نے قدرے ناراضگی سے کہا تم نے الماری ٹھیک نہیں بنائی
اس میں کیا خرابی ہے؟
*ترکھان* نے معذرت کے انداز میں پوچھا
اس کا پانچواں خانہ چھوٹا ہے تم خود گھس کر دیکھو وہ اس کے معائنے کے لئے اندر داخل ہوا تو عورت نے اس خانے کو بھی مقفل کر دیا
وہ خط لے کر سیدھی جیل گئی پیغام دیا اور اپنے عاشق کو رہا کرا کر لے آئی اس عورت نے اپنے عاشق کو ساری کہانی سنائی وہ بولا اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
وہ بولی اس واقعے کے بعد ہم اس شہر میں نہیں ٹھہر سکتے چنانچہ اپنا سامان اونٹوں پر لاد کر وہ دوسرے شہر روانہ ہو گئے وہ پانچ مرد جو اس الماری کے پانچ خانوں میں مقید تھے ایک عجیب عذاب سے گزر رہے تھے نہ کھانے کو کچھ اور نہ پینے کو ہی کچھ میسر تھا پیشاب کو روکنے کا کرب اس پر مستزاد آخر *ترکھان* کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور اس کا پیشاب خطا ہوگیا اس کے بعد سلسلہ جاری ہو گیا *ترکھان* نے *بادشاہ* کے سر پر *بادشاہ* نے *وزیر* کے *وزیر* نے *والی* کے *والی* نے *قاضی* کے سر پر *پیشاب* کر دیا *قاضی* چیخ اٹھا اس بے غیرتی اور بے حیائی کی حد ہوگئی کیا یہ قید ہی کافی نہیں تھی جو پیشاب سے بھی ذلیل کرنا تھا؟
*والی* نے اس کی آواز پہچانتے ہوئے کہا خدا تمہارا اجر زیادہ کرے گا
اس کے بعد *والی* نے شکایت کی تو *وزیر* بولا اللہ تمہیں اس صبر کی جزا دے گا
جب *وزیر* نے واویلا مچانا شروع کیا تو *بادشاہ* نے اس کی آواز پہچان لی لیکن اپنی عزت کا خیال رکھتے ہوئے خاموش رہا اچانک *وزیر* بولا خدا اس عورت پر لعنت بھیجے اس نے *بادشاہ* کے علاوہ شہر کے سب *افسران* بالا کو اس مصیبت میں ڈالا ہے
یہ سننا تھا کہ *بادشاہ* بولا فکر نہ کرو میں سب سے پہلے اس قطامہ کے جال میں پھنسا ہوں
یہ سنتے ہی *ترکھان* بولا میں نے تو اس کے لئے یہ الماری بنائی تھی اور میں ہی اس میں مقید ہوں
اس کے بعد وہ سب ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے
جب ہمسایوں نے اس گھر کو ویران دیکھا تو جمع ہو گئے ایک بولا یہاں ایک عورت رہا کرتی تھی نجانے اسے کیا ہوا ہمیں دروازہ توڑ کر اندر جانا چاہیے اس سے پیشتر کے *قاضی* یا* بادشاہ* ہمیں لاپرواہی کے الزام میں دھر لیں
چنانچہ وہ دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے انہوں نے ایک بہت بڑی لکڑی کی الماری دیکھی اور انسانوں کی بھوک سے کراہنے کی آواز سنی ان میں سے ایک بولا
کیا اس الماری میں بھوت پریت ہیں؟
دوسرے نے کہا ہمیں اس الماری کو جلا دینا چاہیے
*قاضی* نے یہ سنا تو چیخا ایسا ہرگز نہ کرنا
ایک نے کہا میں کہتا تھا اس میں جن ہیں جو انسانوں کی زبان میں باتیں کرتے ہیں
یہ سننا تھا کہ *قاضی* نے پہلے تلاوت قرآن کریم کی اور اس کے بعد ہمسایوں کو الماری کے قریب آنے کی دعوت دی جب وہ قریب آئے تو وہ بولا میں *قاضی شہر* ہوں یہ میرا نام ہے اور اس الماری میں بہت سے آدمی بند ہیں اس نے سب کا تعارف کرایا
لیکن تم لوگ اس طرح بند کیسے ہوئے؟
ایک نے پوچھا
چنانچہ اس نے سب کو کہانی تفصیلاً سنائی یہ سننا تھا کہ ہمسائے ایک *ترکھان* کو بلا کر لائے جس نے اس الماری کو کھولا *قاضی، والی، وزیر، بادشاہ اور ترکھان* کو رہا کیا جب سب نے ایک دوسرے کو عجیب و غریب رنگین کپڑوں میں دیکھا تو اپنے آپ پر ہنسنے لگے
کیسی لگی یہ کہانی؟